جمعرات، 26 نومبر، 2015

اسلام آباد یونین کونسل 45 کا سیاسی منظر نامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یو نس مجاز

اسلام آباد۔۔   یونین کونسل45 کا سیاسی منظر نامہ ..............تحریر یونس مجاز 
       وفاقی دارالحکومت کی تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات کا انعقا د ا نومبر کو ہونے جارہے ہیں  دوقومی حلقوں  میں  یونین کونسلزبنائی گئی ہیں  ان یونین کونسلز میں جہاں  سیاسی جماعتوں  نے اپنے امیدوار میدان میں  اتاریں  ہیں  وہاں  بعض یونین کو نسلز میں  آ زاد امید وار بھی ہیں  جو یہ سمجھتے ہیں  کہ وہ اپنی سماجی خدمات کے صلے میں  حلقہ کے عوام کو بہتر قیادت فراہم کر سکتے ہیں  ان ہی میں  ا سلام آباد کی ایک یو نین کونسل   بھی ہے جو جھنگی سیداں  کی ملحقہ آبادیوں  عثمان ٹاون ،رحمان کالونی ،فتح ٹاون ،ڈھوک کھوکھراں ،ڈھوک قریشیاں  اور پنڈ پراچہ سمیت نوتھیا کے علاقوں  شمس کالونی ،فیصل کالونی ،مدینہ کالونی حاجی کیمپ،ہزارہ کالونی ،علی بخش ٹاون ،سلمان ٹاون ،خیام ٹاوں  کے علاوہ چھیلو ،ٹھلہ سیداں  اور پر مشتمل ہے اس یو نین کونسل میں  ووٹروں  کی کل تعداد تقریبا بائیس ہزار ہیوٹوں  کی تعدداد کے لحاظ سے سب سے بڑی یونین کونسل بنتی ہے جہاں  چہرمینی اور وائس چہرمینی کے لئے آزاد پینل سمیت  چار پینل پنجہ آزمائی کر رہے ہیں  پیپلز پارٹی کے پینل میں  ملک نزیر اور ملک عامر ،پی ٹی آئی کے عامر مغل اور عدیل شاہ ،مسلم لیگ ن کے سید سبط الحسن شاہ اور رفاقت حسین شاہ جب کہ آزاد پینل کے حاجی گلفراز خان اور ملک مہربان علی اعون شامل ہیں  پیپلز پارٹی کا پینل چونکہ قابل ذکر ووٹ کا حامل دکھائی نہیں  دیتا جس کے بہت سے ووٹر اپنی قیادت سے نالاں  ہونے کی وجہ سے آزاد پینل کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں  کیونکہ جیالوں  کی سرشت میں  یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے سوا کسی اور سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے سے تو رہے سو اکثریت جیالوں  کی آزاد پینل کو سپورٹ کرتی نظر آتی ہے پی ٹی آئی کے پینل کے دونوں  امیدواروں  کا تعلق جھنگی سیداں  سے ہے اسی طرح مسلم لیگ ن کے پینل کے دونوں  امیدوار بھی جھنگی سیداں  کے ہی باسی ہیں  یہی بات ان دونون پینلز کے لئے نقصان کی سبب بن سکتی ہے جب کہ آزاد پینل کی سیاسی حکمت عملی مزکورہ دونوں   پینلز کے مقابلے میں  بہتر طور پر سامنے آئی ہے جس کے امیدوار برائے چہرمین حاجی گلفراز خان کا تعلق جھنگی سیداں  سے ہے جہاں  وہ نہ صرف اپنی ذات برادری تعلق داری اور سوشل کاموں کی وجہ سے اپنا ایک مضبوط حلقہ اثر رکھتے ہیں  بلکہ پرانے مسلم لیگی کارکن ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے حلقوں  میں  بھی ان کا خاصا اثر رسوخ ہے جن کے اکثریتی ووٹ یقینا ان کے پینل کو جائیں  گے اس طرح جھنگی سیداں  کے ایریا سے تینوں  پینلز میں  ووٹ تقسیم ہوتا کھائی دیتا ہے جو کل ووٹس کا تقریبا  نصف بنتا ہے باقی نصف جس میں  چھیلو  اور ٹھلہ سیداں  کے علاوہ نوتھیا اور اس کے مختلف ٹاونز اور کالونیاں  شامل ہیں  اصل انتخابی میدان ہو گا جو آزاد پینل کے امیدوار برائے وائس چہرمین ملک مہربان علی اعوان کا آبائی حلقہ ہے جو اپنے سوشل تعلقات اور خدمات کی وجہ سے مضبوط امیدوار ہیں  سلمان ٹاون ،خیام ٹاون علی بخش ٹاون اوراور چھیلو میں  ان کی برادری اور تعلق داری کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے جبکہ شمس کالونی ، فتح ٹاون ،فیصل ٹاون ،مدینہ کالونی اور ہزارہ کالونی میں  بھی سماجی خدمات کی وجہ سے ان کا ذاتی اثر رسوخ کافی زیادہ ہے جبکہ جماعت اسلامی اور اے این پی سمیت صوبیدار شفیق کا پینل پہلے ہی آزاد پینل کے حق میں  دستبردار ہو چکا ہے علاوہ ازیں  مذہبی حلقوں  اور علمائ ِ کرام کی اکثریت نے بھی آزاد پینل کی حمایت کا اعلان کیا ہے پارٹی ووٹ کی حیثیت اپنی جگہ مسلم سہی لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا کہ لوکل باڈیز کے انتخابات میں  سیاسی پارٹیاں  کم جبکہ برادری ،جنبہ دھڑا اور سوشل تعلقات زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں  جس میں  آزاد پینل کو سبقت حاصل ہے کیونکہ لوکل سیاست میں  لوگوں  کی غم خوشی میں  شریک ہو نا بنیادی اہمیت کا حامل ہے جو مسلم لیگ ن کے امیدوار برائے چہرمین سید سبط الحسن میں  ناپید ہے اسی طرح پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے پینلز کے وائس چہرمینوں  کا تعلق بھی نوتھیا کے علاقہ سے نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان پینلز کی پوزیشن اس حلقہ میں  خاصی کمزور دیکھائی دیتی ہے چونکہ مزکورہ دونوں  پینلز کا بیس کیمپ جھنگی سیداں  کے گرد گھومتا ہے یعنی چہرمین اور وائس چہرمین ایک ہی جگہ سے لئے گئے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے سنجیدہ حلقے کمزور پینل کو پارٹی ٹکٹ دینے کی وجہ سے سخت پریشان اور نالاں  ہیں  جس کا اظہار وہ یقینا پولنگ کے روز بھی کریں  گے تا ہم پی ٹی آئی پینل پارٹی ووٹ حاصل کرے گا  سواصل مقابلہ پی ٹی آئی اور آزاد پینل کے مابین بنتا نظر آتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ تیس نومبر کو اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لوگ جھوٹے وعدوں  اور نعروں  پر یقین رکھتے ہیں  یا پھر اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرتے ہیں  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو نس مجاز ۔۔۔۔۔فون نمبرر03369002350

اتوار، 30 اگست، 2015

ہری پور ۔ پی ٹی آئی کے عادل اسلام ضلع اور طارق خان تحصیل نا ظم منتخب۔ جب کہ آغا شبیر ایڈو کیٹ اوراحسن علی عرف مٹھا شاہ نائب ناظمین منتخب

ہری پور (یو نس مجاز) ہری پور میں  ضلع ناظم تحصیل ناظم اور نائب ناظمین کے انتخابات مکمل ہو گئے پی ٹی آ ئی نے میدان مار لیا مسلم لیگ ن چاروں  شانے چت ہوگئی ،،،تفصیلات کے مطابق صوبہ بھر کی طرح ضلع ہری پور میں  بھی آج ضلعی اور تحصیل حکومتوں  کے  انتخابات ہوئے پی ٹی آئی کے عادل اسلام55 ووٹ لے کر ضلع ناظم منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ ن کے جاوید خان نے 14ووٹ حاصل کئے،تحصیل ناظم کے لئے  پی ٹی آئی کے طارق خان







42 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جب کہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ ن کے سجادخان بگڑا12 ووٹ حاصل کر پائے اسی طرح پی ٹی آئی کے آغا شبیرایڈو کیٹ  نائب ضلعی ناظم اور تحصیل  ناظم احسن علی شاہ عرف مٹھا شاہ بھی منتخب ہو گئے جن کا مقابلہ بالترتیب  مسلم لیگ ن کے محمد داد خان اور راجہ ایازایڈو کیٹ  نے کیا اور ناکام رہے  تحصیل غازی میں پی ٹی آئی کے اسلم حیات بلا مقابلہ ناظم اور محمد انور نائب ناظم منتخب ہو گئے۔واضح ہو کہ گزشتہ روز ضلع بھر کی یونین کونسلوں  اور ویلج کونسلوں  کے ممبران نے اپنا پنا حلف اٹھایا اس طرح ضلع ہری پور میں  مقامی حکومتوں  کے قیام کا مرحلہ مکمل ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Add caption

پیر، 17 اگست، 2015

ہری پورضمنی الیکشن ، منظر پیش منظر ... تجزیہ نگار؛؛؛؛ یو نس مجاز















 ۔                                 ہری پورضمنی الیکشن ،  منظر پیش منظر۔۔۔۔۔                                                                   یو نس مجاز
   صاحبو ایک زمانہ تھا کہ خیبر پختون خواہ خصوصا ہزارہ میں  مسلم لیگ کا طوطی بولتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن صرف ہزارہ تک سکڑ کر رہ گئی جہاں  روائتی سیاست دانوں  پر انحصار اس کا وطیرہ رہا جو اپنا حلقہ انتخاب رکھتے ہیں  اس لئے جب چاہا اڑ کر کسی اور درخت پر جا بیٹھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن عوام میں  جڑ یں  مضبوط کرنے میں  ناکام رہی اور شخصیات قدآور ہوتی گئیں  ضلع ہری پور میں  ایک عرصہ تک راجگان فیملی اور ترین خاندان کا اثرو رسوخ قائم رہا سو سیاسی پارٹیاں  ان ہی کے گرد گومتی رہیں جن کی سربرائی بلتر تیب راجہ سکندر زمان اور گوہر ایوب خان کے پاس رہی لیکن 1993 کے عام انتخابات میں  سردار مشتاق نے مسلسل محنت اور گجر برادری کے اتحاد سے اپ سیٹ کرتے ہوئے پہلی بار راجہ سکندر زمان کے فرزند راجہ عامر زمان کو شکست دے کر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے اور مسلم لیگ ن میں  شمولیت اختیار کر لی 1997 میں  بھی اپنی حثیت برقرار رکھی سردار محمد مشتاق نے ایک اور بڑا اپ سیٹ اس وقت کیا جب وہ 2008 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے انھوں نے  عمر ایوب خان ق لیگ اور راجہ عامر زمان دونوں کو بیک وقت شکست دی لیکن 2013 میں پی پی( ڈوبتی کشتی )کے ٹکٹ سے حصہ لیا اور بری طرح شکست کھا گئےاسی طرح  2002 کے عام انتخابات میں  ایک اور اپ سیٹ ہوامسلم لیگ ن کے صوبائی صدرپیر صابرشاہ جو مسلسل حلقہ پی کے 52 سے جیتتے چلے آرہے تھے نووارد فیصل زمان جہازوں والے سے ہار گئے روائتی سیاست کے خاتمے کی ہوا یہاں تک ہی نہ تھمی2002  ہی میں سکندرپور کی قاضی فیملی کے قاضی محمد اسد نے ترین فیملی کے یوسف ایوب خان کوہرا کر صوبائی اسمبلی کی رکنیت حاصل کر لی جب کہ انھوں  نے بھی  2008 کے الیکشن میں  اپنی حثیت برقرار رکھی اور جیت کے بعداے این پی میں  شامل ہو گئے تھے تاہم 2013 میں  وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے لیکن یو سف ایوب خان سے ہار گئے جو تحریک انصاف کے امید وار تھے جس نے پہلی بار صوبہ خیبر پختون خواہ میں  اکثریتی پارٹی ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی اور عوامی اتحاد کے تعاون سے حکومت بنائی لیکن یوسف ایوب خان عدالتی فیصلے کے تحت جعلی ڈگری کے حوالے سے نا اہل قرار پائے تو ان کے بھائی اکبر ایوب خان تحریک انصا ف کے ٹکٹ پر میدان میں  اترے جن کے مقابلے میں  مسلم لیگ ن کے قاضی اسد ایک بار پھر میدان میں  تھے جبکہ تیسرے امید وار کے طور پر با بر نوازفرزند اختر نواز خان مرحوم بھی پہلی بار اپنے آبائی حلقہ کے بجائے پی کے پچاس سے مقابلے میں  تھے یہ ضمنی الیکشن اکبر ایوب خان جیت گئے اور بابر نواز خان نے دوسرے نمبر پر آکر سیاسی مبصرین کو ورطہ حیرت میں  ڈال دیا جبکہ قاضی اسد تیسرے نمبر پر رہے بابر نواز کی اس پزیرائی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کے لئے میدان میں  آسکتے ہیں  کیونکہ کہ ان کے والد اختر نواز خان مرحوم کی آبائی سیٹ  پی کے 51پر ان کے چچا رکن صوبائی اسمبلی چلے آرہے ہیں  سو حالیہ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن نے انھیں  یہ موقع فراہم کر دیا جس میں  وہ پوری تیاری کے ساتھ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اترے اورہری پور میں  این اے 19کے ضمنی الیکشن میں  مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا پی ٹی آئی کو ریحام خان اور عمران خان کے سیاسی جلسے بھی نہ بچا سکے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے امید واربابر نواز نے ایک لاکھ 37ہزار219جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصا ف کے راجہ عامر زمان نے  90ہزار698 ووٹ حاصل کئے اس طرح بابر نواز کو راجہ عامر پر 46521  ووٹوں  کی برتری حاصل ہے یہ حلقہ   577480 رجسٹرڈووٹرز پر مشتمل  ہے جس میں  513 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور کل نو امید واروں  نے حصہ لیا جب کہ پاکستان کی تاریخ میں  پہلی بار اس الیکشن میں   30 پولینگ اسٹیشنوں  پر بائیو میٹرک سسٹم آزمایا گیا جس میں  36 ہزار ووٹروں  نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے ووٹوں  کا ٹرن آوٹ 41 فیصد رہا دیگر امیدواروں  میں  کوئی بھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکا 
          واضح ہو کہ2013 کے عام انتخابات میں اس  سیٹ سے تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن ہارنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمر ایوب کی درخواست پر الیکشن ٹربیونل  نے سات پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تو عمر ایوب خان ان پولنگ پرجیت گئے لیکن راجہ عامر زمان نے سپریم کورٹ میں  اس فیصلے کو چیلنج کر دیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پورے حلقہ میں  سولہ اگست کو دوبارہ الیکشن کرادیا ،عمر ایوب والدہ کی بیماری کے بحث الیکشن سے دستبردار ہوگئے تو مسلم لیگ ن نے وقت کی نذاکت اور موقع کا بہتر استعمال کرتے ہوئے آزاد امید وار بابر نواز کو اپنا امید وار بنا لیا جو علاقہ میں  اپنے والد مرحوم اخترنواز خان سابق صوبائی وزیر کے پی کے کی سیاسی ساکھ کا ایڈوانٹج پہلے ہی رکھتے تھے مرحوم اختر نواز نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز لوکل سیاست سے کیا تھا اور انتہائی کم عمری میں  ٹاون کمیٹی کھلابٹ کے چہرمین منتخب ہوئے تھے ان ہی دنوں  راقم کی ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ان کی عوامی خدمت کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے میری ان سے دوستی ہو گئی میں  نے اس وقت ایک مقامی اخبار میں ّّ اتھرا چہرمینٗٗ  کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں  پیشن گوئی کی تھی کہ اختر نوازخان مستقبل میں  ہری پور کی سیاست میں  اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں  سو 1993 کے عام انتخابات میں  وہ پیر صابر شاہ کے مقابلہ میں امیدوارصوبائی اسمبلی کے طور پر متاثرین تربیلہ ڈیم کے نمائندہ بن کر سامنے آئے تو مجھے اپنی پیشن گوئی سچ ہوتی دکھائی دی لیکن شومئی قسمت  اختر نواز خان صرف دو ہزار ووٹوں  کی کمی سے اپنی منزل نہ پاسکے ایک نو وارد ہونے کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ متاثرین تربیلہ کی بستیوں  کھلابٹ ٹاوں  شپ ،کانگڑا کالونی اور غازی ہملٹ کے عوام کی بھر پور حمایت سے اختر نواز اس حلقہ سے قبل ازیں  تین بار ایم پی اے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار پیر صابر شاہ کو چاروں  شانے چت کر دیں  گے جس کا اظہار میں  نے اس وقت ایک قومی اخبار میں  لکھے گئے کالموں میں  کرنا شروع کیا تو پیر صاحب جن سے میرے اچھے تعلقات تھے ناراض ہو گئے ان کے بھتیجے حامد شاہ نے مجھے ایک مقامی ہوٹل میں  میرے ایک دوست مرحوم آفتاب احمد جو ٹیلیفون ایکسچینج میں  کام کرتے تھے کے ذریعے پریس کانفرنس کے بہانے بلوایا جب میں  ہوٹل پہنچا تو ایک مقامی صحافی مرحوم فصیح الدین فصیح کے ہمراہ حامد شاہ بھی آگئے پہلے تو میرے کالموں  پر پیر صاحب کی ناراضگی کا اظہار کیا اورکہا کہ وہ خود حویلیاں  کے ایک انتخابی جلسہ میں ہیں  کچھ دیر میں  آ جائیں  گے پھرپیر صابر شاہ کے حق میں  تجزیے لکھوانے کے لئے سودا بازی کرنے کی کوشش کرنے لگے اس سارے منظر کو اسی ہوٹل میں  موجود قاری مطیع الرحمان قاسمی اور قاری محمد بشیر مرحوم  پردے کے پیچھے بیٹھے دیکھ رہے تھے لیکن میں  نے قلم بیچنے سے انکار کر دیا اور ناراض ہو کر محفل سے اٹھ آیا صبح اختر نواز خان کا فون آیا گزشتہ رات کے اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سچائی  پر ڈٹے رہنے پرمیرے کردار کو سراہا میں  نے کہا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں  دوستی اپنی جگہ لیکن یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ متاثرین اتحاد کی وجہ سے آپ کی پوزیشن مضبوط ہے دوسری صورت میں  میرا قلم آپ کے خلاف بھی اٹھ سکتا ہے عین الیکشن کے دن چھپنے والے میرے ایک کالم کی سینکڑوں  فوٹو کاپیاں  اختر نواز خان نے حلقہ کے تمام پولنگ اسٹیشنوں  پر تقسیم کیں  لیکن پیر صابر شاہ پرانے کھلاڑی تھے سو دوہزار ووٹ سے جیت گئے اور وزیر اعلیٰ کے پی کے بن گئے ہری پور پہلے دورے پر تشریف لائے تو میں  ان سے دور دور رہا لیکن سیٹھ نسیم مرحوم کے گھر کھانے کی میز پر ربنواز خان سابق ڈی ای او ایجو کیشن مجھے زبردستی پکڑ کر وزیر اعلیٰ کے پاس لے گئے ملاقات میں  پیر صاحب نے دھیمے لہجے میں  شکوہ کرتے ہوئے کہا میں  دس ہزار کی لیڈ سے جیت رہا تھا لیکن آپ کے کالم میرے آٹھ ہزار ووٹ ہڑپ کر گئے جس کے جواب میں  ہنستے ہوئے میں  نے کہا سر مجھے فخر ہے کہ میرے کالموں کی سچائی میں  اتنی طاقت تھی کہ آپکے آٹھ ہزار ووٹ کھا گئے لیکن مجھے آج یہ بھی فخر ہے کہ آپ ہزارہ کے دوسرے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں  
  صاحبو  بات ہورہی تھی ا ختر نواز خان کے عوامی خدمت اور سیاسی سفر کی تو1997 میں بھی پیرصابرشاہ کے مقابلہ میں  آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے جنرل پرویز مشر ف نے بلدیاتی نظام کا ڈول ڈالا تو اختر نواز خان اس کاحصہ بن گئے لیکن کم ہی عرصہ میں  الیکشن 2002 کا اعلان ہو گیا تو اختر نواز خان نے ممبر ضلع کونسل کی سیٹ چھوڑ کر ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کے لئے قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا نئی حلقہ بندیوں  کی وجہ سے اب کی بار ان کا مقا بلہ مسلم لیگ ن کے سردار مشتاق سے تھا جو پہلے بھی راجہ عامر زمان کو ہرا کر رکن اسمبلی کے طور پر سیاسی ساکھ بناچکے تھے لیکن یہاں  اختر نواز خان کی قسمت نے یاوری کی اور وہ نہ صر ف سردار مشتاق کو ہرا کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے بلکہ حکومتی جماعت جمیعت علمائ اسلام میں  شامل ہو کر صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ بن گئے اوردل کھول کر عوام کی خدمت کی اقتدار کے ان پانچ سالوں میں  خوب شہرت پائی اور ضلع ہری پور کی ایک موئثر سیاسی قوت کے طور پر ابھرے تواللہ تعالیٰ نے میری  دس سال قبل کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت کرد کھائی اختر نواز خان سے دوستی اور بھائی بندی کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا مرحوم اکثر سیاسی محفلوں  میں  بڑے فخر سے کہتے تھے میں  یو نس بھائی کی سیاسی پیشن گوئی کا نتیجہ ہوں  شائد یہی وجہ ہے کہ مرحوم بہت عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اپنی سیاسی ساکھ کے باعث اختر نواز خان ایک بار پھر2008   کے الیکشن میں  بھاری اکثریت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے لیکن زندگی نے زیادہ دیر وفا نہ کی اور وہ کھلابٹ ہی میں  ایک جنازہ میں  شرکت کے دوران دس اکتوبر کو شہید کر د ئیے گئے درینہ دشمنی کے اس سانحہ نے عوامی خدمت سے سرشار دلیر لیڈر ضلع ہری پور کی عوام سے چھین لیا ان کی وفات کے بعدان کے بھائی گوہر نوازپہلی بار ضمنی الیکشن میں  اترے اختر نوازخان کی عوامی خدمت کے صلہ میں  بھاری اکثریت سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست فاش دینے کے بعد رکن صوبائی اسمبلی پی کے51 منتخب ہو گئے نہ صر ف اپنے بھائی مرحوم اختر نواز کے مشن کو جاری رکھا بلکہ عوامی سیاست کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے عوام سے رابطوں  کے ساتھ ساتھ نمایاں  ترقیاتی کام بھی کروائے اور 2013 کے الیکشن میں  دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکرآفتاب شیرپاو کی جمہوری وطن پارٹی میں  شامل ہو گئے سو گوہر نوازکی اس سیاسی ساکھ نے بھی ان کے بھتیجے بابر نواز کی اس کامیابی میں  اہم کردار ادا کیا اس لئے سیاسی مبصرین اس کامیابی کو صرف مسلم لیگ ن کی کامیابی قرار دینا قرین انصاف نہیں  سمجھتے وہ آزاد حثیت سے بھی الیکشن لڑتے تو ان کے کامیابی کے امکانات موجودتھے  کیونکہ 50 ہزار گوہر نواز خان کے، پی کے 51 سےجو انھوں نے حاصل کئے تھے اور 23 ہزار بابر نواز کے وہ ووٹ جوانھوں نے پی کے پچا س سے ضمنی الیکشن میں حاصل کئے یعنی 73 ہزار ووٹ تو ان کے کریڈٹ پر رھے دیگر حلقوں میں بھی ذاتی اثر رسوخ موجودہے  جب کہ قبل ازیں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی سمیت تین صوبائی اسمبلیوں  سے  2013کے جنرل الیکشن میں  تحریک انصاف سے شکست کھا چکی ہے ماسوائے ایک سیٹ پی کے 49   کے جہاں  سے راجہ فیصل زمان جیتے تھے جو راجہ سکندر زمان مرحوم کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر راجہ عامر زمان کے بھائی ہیں اور 2002 میں آزاد حثیت سے جیت کر جمعیت علمائ اسلام میں  شامل ہو گئے تھے جبکہ  2008 میں  بھی راجہ فیصل زمان اسی آبائی حلقہ سے جیتے تھے ا س لئے ان کی جیت میں  بھی مسلم لیگ ن کا کوئی لینا دینا نہیں  تھا اب کی بار بھی مسلم لیگ ن اگر روائتی سیاست دانوں  میں  سے کسی کو ٹکٹ دیتی تو اس کی جیت مشکل تھی یہی وجہ ہے پرانے سیاست دانوں  میں  کسی نے بھی حامی نہیں  بھری اور بابر نواز کو ہی امیدواربنانے میں  عافیت سمجھی، رہی بات حالیہ الیکشن میں  تحریک انصا ف کے ہارنے کی تو تحریک انصاف نہیں  ہاری بلکہ راجہ عامر زمان ناکام ہوئے ہیں  اپنی سستی اور عوام سے عدم رابطوں  کی وجہ سے کیونکہ ان کے والد کے دھڑے جنبے کے لوگ جو ہمیشہ ان کا ووٹ بینک رہے ہیں  اب کی بار نالاں  تھے جبکہ تحریک انصاف نے بلدیاتی الیکشن میں  ضلع و تحصیل دونوں  حثیتوں  میں کلین سویپ کیاجس کا سہرا یوسف ایوب خان کے سر جاتا ہے اور مسلم لیگ ن کا کوئی قابل ذکر امیدوار کامیاب نہ ہو سکا جبکہ گوہر نواز خان کے حمایت یافتہ امید وار بھی ہار گئے تحریک انصاف ہی کی بدولت راجہ عامر زمان حالیہ الیکشن میں  مقابلہ کی پوزیشن میں  رہے اور مجموعی  طور پر نوے ہزار698 ووٹ حاصل کرنے میں  کامیاب ہوئے ورنہ دوسری صورت میں  معاملہ اور بھی سنگین ہوتاکیونکہ وہ اپنے آبائی حلقے پی کے 49 سے بھی وہ ووٹ حاصل نہ کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی وہاں  بھی راجہ عامر زمان ہل اسٹیشنوں  نجف پور، ہلی، جبری اور دیگر یونین کونسلوں  سے ہار گئے جہاں  سردار مشتاق کا طوطی بولتا ہے جو  2013 میں  الیکشن سے قبل بوجہ مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی پی میں  شامل ہو گئے تھے لیکن واپس مسلم لیگ ن میں  شامل ہو چکے ہیں  جس کا بھرپور فائدہ بابر نواز کو پہنچا راجہ عامرزمان صرف پنج کٹھہ اور خانپور کے علاقوں  سے کامیابی حاصل کر سکے جبکہ پی کے سے تحریک انصاف کے فیصل زمان جہازوں  والے اپنے امیدوار راجہ عامر زمان کو اکثریت دلانے کی بھر پور کوشش میں  رہے اور پیر صابر شاہ کو ٹف ٹائم دیا جبکہ پی کے 50،51 میں  بھی راجہ عامر زمان کو سخت حا لات کا سامنا رہا تاہم بابر نواز مسلم لیگ ن پلس والد اختر نواز مرحوم کی سیاسی ساکھ کے نتیجہ میں  ایک لاکھ  37ہزار 219 ووٹ لے کر بھاری حثیت سے کامیاب ہوگئے ہیں  اب یہ بابر نواز خان کا امتحان ہے کہ وہ خود کو اپنے والد کاسیاسی جانشین ثابت کرکے عوامی خدمت کو بلاتفریق شعار بناتے ہیں  یا پھر روائتی سیاست کا شکار ہو جاتے ہیں  نوخیز ہونے کی وجہ سے ابھی ان کا من میلا نہیں  ہوا خدا کرے وہ اس اجلے پن کو سنبھال رکھیں  بعض مبصرین کا خیال ہے یو سف ایوب خان  اور قاضی اسدکے لئے اس ضمنی الیکشن نے مشکلات بڑھا دی ہیں  بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بابر نواز اگلے الیکشن میں  پی کے پچاس سے اپنے بھائی یا کزن سمیع اللہ خان کو میدان میں  اتار سکتے ہیں  جو حال ہی میں  ضلع کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
              یو نس مجاز ۔۔۔  فون نمبر 03369002350۔۔۔۔۔03018126146














سرکا ری نتا ئج آ گئے۔ ہری پو،ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا



ہری پور(یو نس مجاز)
ہری پور میں  این اے کے ضمنی الیکشن میں  مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا  ہے پی ٹی آئی کو ریحام خان اور عمران خان کے سیاسی جلسے بھی نہ بچا سکے عبرت ناک شکست  ہوئی  الیکشن کمیشن کی طرف سےسرکاری حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے امید واربابر نواز نے ایک لاکھ 37ہزار219 جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصا ف کے راجہ عامر زمان نے 90 ہزار698 ووٹ حاصل کئے اس طرح بابر نواز کو راجہ عامر پر  46521 ووٹوں  کی برتری حاصل ہے یہ حلقہ 577480  ووٹرز پر مشتمل  ہے جس میں  513 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور کل نو امید واروں  نے حصہ لیا جب کہ پاکستان کی تاریخ میں  پہلی بار اس الیکشن میں  30  پولینگ اسٹیشنوں  پر بائیو میٹرک سسٹم آزمایا گیا جس میں  36 ہزار ووٹروں  نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے  ووٹوں  کا ٹرن آوٹ 41  فیصد رہا ،واضح ہو کہ2013  کے عام انتخابات میں اس  سیٹ سے راجہ عامر زمان نے کامیابی حال کی تھی لیکن ہارنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمر ایوب کی درخواست پر  الیکشن ٹربیونل  نے سات پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تو عمر ایوب جیت گئے لیکن راجہ عامر نے سپریم کورٹ میں  چیلنج کر دیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پورے حلقہ میں  سولہ اگست کو دوبارہ الیکشن کرادیا ،عمر ایوب والدہ کی بیماری کے بحث الیکشن سے دستبردار ہوگئے تو مسلم لیگ ن نے آزاد امید وار بابر نواز کو اپنا امید وار بنا لیا جو علاقہ میں  اپنے والد مرحوم اخترنواز خان سابق صوبائی وزیر کے پی کے کی  سیاسی ساکھ کا ایڈواٹج پہلے ہی رکھتے تھے سو بھاری اکثریت سے جیت گئے دیگر امیدواروں  میں  کوئی بھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکا ۔