اتوار، 30 اگست، 2015

ہری پور ۔ پی ٹی آئی کے عادل اسلام ضلع اور طارق خان تحصیل نا ظم منتخب۔ جب کہ آغا شبیر ایڈو کیٹ اوراحسن علی عرف مٹھا شاہ نائب ناظمین منتخب

ہری پور (یو نس مجاز) ہری پور میں  ضلع ناظم تحصیل ناظم اور نائب ناظمین کے انتخابات مکمل ہو گئے پی ٹی آ ئی نے میدان مار لیا مسلم لیگ ن چاروں  شانے چت ہوگئی ،،،تفصیلات کے مطابق صوبہ بھر کی طرح ضلع ہری پور میں  بھی آج ضلعی اور تحصیل حکومتوں  کے  انتخابات ہوئے پی ٹی آئی کے عادل اسلام55 ووٹ لے کر ضلع ناظم منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ ن کے جاوید خان نے 14ووٹ حاصل کئے،تحصیل ناظم کے لئے  پی ٹی آئی کے طارق خان







42 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جب کہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ ن کے سجادخان بگڑا12 ووٹ حاصل کر پائے اسی طرح پی ٹی آئی کے آغا شبیرایڈو کیٹ  نائب ضلعی ناظم اور تحصیل  ناظم احسن علی شاہ عرف مٹھا شاہ بھی منتخب ہو گئے جن کا مقابلہ بالترتیب  مسلم لیگ ن کے محمد داد خان اور راجہ ایازایڈو کیٹ  نے کیا اور ناکام رہے  تحصیل غازی میں پی ٹی آئی کے اسلم حیات بلا مقابلہ ناظم اور محمد انور نائب ناظم منتخب ہو گئے۔واضح ہو کہ گزشتہ روز ضلع بھر کی یونین کونسلوں  اور ویلج کونسلوں  کے ممبران نے اپنا پنا حلف اٹھایا اس طرح ضلع ہری پور میں  مقامی حکومتوں  کے قیام کا مرحلہ مکمل ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Add caption

پیر، 17 اگست، 2015

ہری پورضمنی الیکشن ، منظر پیش منظر ... تجزیہ نگار؛؛؛؛ یو نس مجاز















 ۔                                 ہری پورضمنی الیکشن ،  منظر پیش منظر۔۔۔۔۔                                                                   یو نس مجاز
   صاحبو ایک زمانہ تھا کہ خیبر پختون خواہ خصوصا ہزارہ میں  مسلم لیگ کا طوطی بولتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن صرف ہزارہ تک سکڑ کر رہ گئی جہاں  روائتی سیاست دانوں  پر انحصار اس کا وطیرہ رہا جو اپنا حلقہ انتخاب رکھتے ہیں  اس لئے جب چاہا اڑ کر کسی اور درخت پر جا بیٹھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن عوام میں  جڑ یں  مضبوط کرنے میں  ناکام رہی اور شخصیات قدآور ہوتی گئیں  ضلع ہری پور میں  ایک عرصہ تک راجگان فیملی اور ترین خاندان کا اثرو رسوخ قائم رہا سو سیاسی پارٹیاں  ان ہی کے گرد گومتی رہیں جن کی سربرائی بلتر تیب راجہ سکندر زمان اور گوہر ایوب خان کے پاس رہی لیکن 1993 کے عام انتخابات میں  سردار مشتاق نے مسلسل محنت اور گجر برادری کے اتحاد سے اپ سیٹ کرتے ہوئے پہلی بار راجہ سکندر زمان کے فرزند راجہ عامر زمان کو شکست دے کر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے اور مسلم لیگ ن میں  شمولیت اختیار کر لی 1997 میں  بھی اپنی حثیت برقرار رکھی سردار محمد مشتاق نے ایک اور بڑا اپ سیٹ اس وقت کیا جب وہ 2008 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے انھوں نے  عمر ایوب خان ق لیگ اور راجہ عامر زمان دونوں کو بیک وقت شکست دی لیکن 2013 میں پی پی( ڈوبتی کشتی )کے ٹکٹ سے حصہ لیا اور بری طرح شکست کھا گئےاسی طرح  2002 کے عام انتخابات میں  ایک اور اپ سیٹ ہوامسلم لیگ ن کے صوبائی صدرپیر صابرشاہ جو مسلسل حلقہ پی کے 52 سے جیتتے چلے آرہے تھے نووارد فیصل زمان جہازوں والے سے ہار گئے روائتی سیاست کے خاتمے کی ہوا یہاں تک ہی نہ تھمی2002  ہی میں سکندرپور کی قاضی فیملی کے قاضی محمد اسد نے ترین فیملی کے یوسف ایوب خان کوہرا کر صوبائی اسمبلی کی رکنیت حاصل کر لی جب کہ انھوں  نے بھی  2008 کے الیکشن میں  اپنی حثیت برقرار رکھی اور جیت کے بعداے این پی میں  شامل ہو گئے تھے تاہم 2013 میں  وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے لیکن یو سف ایوب خان سے ہار گئے جو تحریک انصاف کے امید وار تھے جس نے پہلی بار صوبہ خیبر پختون خواہ میں  اکثریتی پارٹی ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی اور عوامی اتحاد کے تعاون سے حکومت بنائی لیکن یوسف ایوب خان عدالتی فیصلے کے تحت جعلی ڈگری کے حوالے سے نا اہل قرار پائے تو ان کے بھائی اکبر ایوب خان تحریک انصا ف کے ٹکٹ پر میدان میں  اترے جن کے مقابلے میں  مسلم لیگ ن کے قاضی اسد ایک بار پھر میدان میں  تھے جبکہ تیسرے امید وار کے طور پر با بر نوازفرزند اختر نواز خان مرحوم بھی پہلی بار اپنے آبائی حلقہ کے بجائے پی کے پچاس سے مقابلے میں  تھے یہ ضمنی الیکشن اکبر ایوب خان جیت گئے اور بابر نواز خان نے دوسرے نمبر پر آکر سیاسی مبصرین کو ورطہ حیرت میں  ڈال دیا جبکہ قاضی اسد تیسرے نمبر پر رہے بابر نواز کی اس پزیرائی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کے لئے میدان میں  آسکتے ہیں  کیونکہ کہ ان کے والد اختر نواز خان مرحوم کی آبائی سیٹ  پی کے 51پر ان کے چچا رکن صوبائی اسمبلی چلے آرہے ہیں  سو حالیہ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن نے انھیں  یہ موقع فراہم کر دیا جس میں  وہ پوری تیاری کے ساتھ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اترے اورہری پور میں  این اے 19کے ضمنی الیکشن میں  مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا پی ٹی آئی کو ریحام خان اور عمران خان کے سیاسی جلسے بھی نہ بچا سکے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے امید واربابر نواز نے ایک لاکھ 37ہزار219جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصا ف کے راجہ عامر زمان نے  90ہزار698 ووٹ حاصل کئے اس طرح بابر نواز کو راجہ عامر پر 46521  ووٹوں  کی برتری حاصل ہے یہ حلقہ   577480 رجسٹرڈووٹرز پر مشتمل  ہے جس میں  513 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور کل نو امید واروں  نے حصہ لیا جب کہ پاکستان کی تاریخ میں  پہلی بار اس الیکشن میں   30 پولینگ اسٹیشنوں  پر بائیو میٹرک سسٹم آزمایا گیا جس میں  36 ہزار ووٹروں  نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے ووٹوں  کا ٹرن آوٹ 41 فیصد رہا دیگر امیدواروں  میں  کوئی بھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکا 
          واضح ہو کہ2013 کے عام انتخابات میں اس  سیٹ سے تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن ہارنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمر ایوب کی درخواست پر الیکشن ٹربیونل  نے سات پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تو عمر ایوب خان ان پولنگ پرجیت گئے لیکن راجہ عامر زمان نے سپریم کورٹ میں  اس فیصلے کو چیلنج کر دیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پورے حلقہ میں  سولہ اگست کو دوبارہ الیکشن کرادیا ،عمر ایوب والدہ کی بیماری کے بحث الیکشن سے دستبردار ہوگئے تو مسلم لیگ ن نے وقت کی نذاکت اور موقع کا بہتر استعمال کرتے ہوئے آزاد امید وار بابر نواز کو اپنا امید وار بنا لیا جو علاقہ میں  اپنے والد مرحوم اخترنواز خان سابق صوبائی وزیر کے پی کے کی سیاسی ساکھ کا ایڈوانٹج پہلے ہی رکھتے تھے مرحوم اختر نواز نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز لوکل سیاست سے کیا تھا اور انتہائی کم عمری میں  ٹاون کمیٹی کھلابٹ کے چہرمین منتخب ہوئے تھے ان ہی دنوں  راقم کی ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ان کی عوامی خدمت کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے میری ان سے دوستی ہو گئی میں  نے اس وقت ایک مقامی اخبار میں ّّ اتھرا چہرمینٗٗ  کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں  پیشن گوئی کی تھی کہ اختر نوازخان مستقبل میں  ہری پور کی سیاست میں  اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں  سو 1993 کے عام انتخابات میں  وہ پیر صابر شاہ کے مقابلہ میں امیدوارصوبائی اسمبلی کے طور پر متاثرین تربیلہ ڈیم کے نمائندہ بن کر سامنے آئے تو مجھے اپنی پیشن گوئی سچ ہوتی دکھائی دی لیکن شومئی قسمت  اختر نواز خان صرف دو ہزار ووٹوں  کی کمی سے اپنی منزل نہ پاسکے ایک نو وارد ہونے کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ متاثرین تربیلہ کی بستیوں  کھلابٹ ٹاوں  شپ ،کانگڑا کالونی اور غازی ہملٹ کے عوام کی بھر پور حمایت سے اختر نواز اس حلقہ سے قبل ازیں  تین بار ایم پی اے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار پیر صابر شاہ کو چاروں  شانے چت کر دیں  گے جس کا اظہار میں  نے اس وقت ایک قومی اخبار میں  لکھے گئے کالموں میں  کرنا شروع کیا تو پیر صاحب جن سے میرے اچھے تعلقات تھے ناراض ہو گئے ان کے بھتیجے حامد شاہ نے مجھے ایک مقامی ہوٹل میں  میرے ایک دوست مرحوم آفتاب احمد جو ٹیلیفون ایکسچینج میں  کام کرتے تھے کے ذریعے پریس کانفرنس کے بہانے بلوایا جب میں  ہوٹل پہنچا تو ایک مقامی صحافی مرحوم فصیح الدین فصیح کے ہمراہ حامد شاہ بھی آگئے پہلے تو میرے کالموں  پر پیر صاحب کی ناراضگی کا اظہار کیا اورکہا کہ وہ خود حویلیاں  کے ایک انتخابی جلسہ میں ہیں  کچھ دیر میں  آ جائیں  گے پھرپیر صابر شاہ کے حق میں  تجزیے لکھوانے کے لئے سودا بازی کرنے کی کوشش کرنے لگے اس سارے منظر کو اسی ہوٹل میں  موجود قاری مطیع الرحمان قاسمی اور قاری محمد بشیر مرحوم  پردے کے پیچھے بیٹھے دیکھ رہے تھے لیکن میں  نے قلم بیچنے سے انکار کر دیا اور ناراض ہو کر محفل سے اٹھ آیا صبح اختر نواز خان کا فون آیا گزشتہ رات کے اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سچائی  پر ڈٹے رہنے پرمیرے کردار کو سراہا میں  نے کہا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں  دوستی اپنی جگہ لیکن یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ متاثرین اتحاد کی وجہ سے آپ کی پوزیشن مضبوط ہے دوسری صورت میں  میرا قلم آپ کے خلاف بھی اٹھ سکتا ہے عین الیکشن کے دن چھپنے والے میرے ایک کالم کی سینکڑوں  فوٹو کاپیاں  اختر نواز خان نے حلقہ کے تمام پولنگ اسٹیشنوں  پر تقسیم کیں  لیکن پیر صابر شاہ پرانے کھلاڑی تھے سو دوہزار ووٹ سے جیت گئے اور وزیر اعلیٰ کے پی کے بن گئے ہری پور پہلے دورے پر تشریف لائے تو میں  ان سے دور دور رہا لیکن سیٹھ نسیم مرحوم کے گھر کھانے کی میز پر ربنواز خان سابق ڈی ای او ایجو کیشن مجھے زبردستی پکڑ کر وزیر اعلیٰ کے پاس لے گئے ملاقات میں  پیر صاحب نے دھیمے لہجے میں  شکوہ کرتے ہوئے کہا میں  دس ہزار کی لیڈ سے جیت رہا تھا لیکن آپ کے کالم میرے آٹھ ہزار ووٹ ہڑپ کر گئے جس کے جواب میں  ہنستے ہوئے میں  نے کہا سر مجھے فخر ہے کہ میرے کالموں کی سچائی میں  اتنی طاقت تھی کہ آپکے آٹھ ہزار ووٹ کھا گئے لیکن مجھے آج یہ بھی فخر ہے کہ آپ ہزارہ کے دوسرے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں  
  صاحبو  بات ہورہی تھی ا ختر نواز خان کے عوامی خدمت اور سیاسی سفر کی تو1997 میں بھی پیرصابرشاہ کے مقابلہ میں  آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے جنرل پرویز مشر ف نے بلدیاتی نظام کا ڈول ڈالا تو اختر نواز خان اس کاحصہ بن گئے لیکن کم ہی عرصہ میں  الیکشن 2002 کا اعلان ہو گیا تو اختر نواز خان نے ممبر ضلع کونسل کی سیٹ چھوڑ کر ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کے لئے قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا نئی حلقہ بندیوں  کی وجہ سے اب کی بار ان کا مقا بلہ مسلم لیگ ن کے سردار مشتاق سے تھا جو پہلے بھی راجہ عامر زمان کو ہرا کر رکن اسمبلی کے طور پر سیاسی ساکھ بناچکے تھے لیکن یہاں  اختر نواز خان کی قسمت نے یاوری کی اور وہ نہ صر ف سردار مشتاق کو ہرا کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے بلکہ حکومتی جماعت جمیعت علمائ اسلام میں  شامل ہو کر صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ بن گئے اوردل کھول کر عوام کی خدمت کی اقتدار کے ان پانچ سالوں میں  خوب شہرت پائی اور ضلع ہری پور کی ایک موئثر سیاسی قوت کے طور پر ابھرے تواللہ تعالیٰ نے میری  دس سال قبل کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت کرد کھائی اختر نواز خان سے دوستی اور بھائی بندی کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا مرحوم اکثر سیاسی محفلوں  میں  بڑے فخر سے کہتے تھے میں  یو نس بھائی کی سیاسی پیشن گوئی کا نتیجہ ہوں  شائد یہی وجہ ہے کہ مرحوم بہت عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اپنی سیاسی ساکھ کے باعث اختر نواز خان ایک بار پھر2008   کے الیکشن میں  بھاری اکثریت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے لیکن زندگی نے زیادہ دیر وفا نہ کی اور وہ کھلابٹ ہی میں  ایک جنازہ میں  شرکت کے دوران دس اکتوبر کو شہید کر د ئیے گئے درینہ دشمنی کے اس سانحہ نے عوامی خدمت سے سرشار دلیر لیڈر ضلع ہری پور کی عوام سے چھین لیا ان کی وفات کے بعدان کے بھائی گوہر نوازپہلی بار ضمنی الیکشن میں  اترے اختر نوازخان کی عوامی خدمت کے صلہ میں  بھاری اکثریت سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست فاش دینے کے بعد رکن صوبائی اسمبلی پی کے51 منتخب ہو گئے نہ صر ف اپنے بھائی مرحوم اختر نواز کے مشن کو جاری رکھا بلکہ عوامی سیاست کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے عوام سے رابطوں  کے ساتھ ساتھ نمایاں  ترقیاتی کام بھی کروائے اور 2013 کے الیکشن میں  دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکرآفتاب شیرپاو کی جمہوری وطن پارٹی میں  شامل ہو گئے سو گوہر نوازکی اس سیاسی ساکھ نے بھی ان کے بھتیجے بابر نواز کی اس کامیابی میں  اہم کردار ادا کیا اس لئے سیاسی مبصرین اس کامیابی کو صرف مسلم لیگ ن کی کامیابی قرار دینا قرین انصاف نہیں  سمجھتے وہ آزاد حثیت سے بھی الیکشن لڑتے تو ان کے کامیابی کے امکانات موجودتھے  کیونکہ 50 ہزار گوہر نواز خان کے، پی کے 51 سےجو انھوں نے حاصل کئے تھے اور 23 ہزار بابر نواز کے وہ ووٹ جوانھوں نے پی کے پچا س سے ضمنی الیکشن میں حاصل کئے یعنی 73 ہزار ووٹ تو ان کے کریڈٹ پر رھے دیگر حلقوں میں بھی ذاتی اثر رسوخ موجودہے  جب کہ قبل ازیں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی سمیت تین صوبائی اسمبلیوں  سے  2013کے جنرل الیکشن میں  تحریک انصاف سے شکست کھا چکی ہے ماسوائے ایک سیٹ پی کے 49   کے جہاں  سے راجہ فیصل زمان جیتے تھے جو راجہ سکندر زمان مرحوم کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر راجہ عامر زمان کے بھائی ہیں اور 2002 میں آزاد حثیت سے جیت کر جمعیت علمائ اسلام میں  شامل ہو گئے تھے جبکہ  2008 میں  بھی راجہ فیصل زمان اسی آبائی حلقہ سے جیتے تھے ا س لئے ان کی جیت میں  بھی مسلم لیگ ن کا کوئی لینا دینا نہیں  تھا اب کی بار بھی مسلم لیگ ن اگر روائتی سیاست دانوں  میں  سے کسی کو ٹکٹ دیتی تو اس کی جیت مشکل تھی یہی وجہ ہے پرانے سیاست دانوں  میں  کسی نے بھی حامی نہیں  بھری اور بابر نواز کو ہی امیدواربنانے میں  عافیت سمجھی، رہی بات حالیہ الیکشن میں  تحریک انصا ف کے ہارنے کی تو تحریک انصاف نہیں  ہاری بلکہ راجہ عامر زمان ناکام ہوئے ہیں  اپنی سستی اور عوام سے عدم رابطوں  کی وجہ سے کیونکہ ان کے والد کے دھڑے جنبے کے لوگ جو ہمیشہ ان کا ووٹ بینک رہے ہیں  اب کی بار نالاں  تھے جبکہ تحریک انصاف نے بلدیاتی الیکشن میں  ضلع و تحصیل دونوں  حثیتوں  میں کلین سویپ کیاجس کا سہرا یوسف ایوب خان کے سر جاتا ہے اور مسلم لیگ ن کا کوئی قابل ذکر امیدوار کامیاب نہ ہو سکا جبکہ گوہر نواز خان کے حمایت یافتہ امید وار بھی ہار گئے تحریک انصاف ہی کی بدولت راجہ عامر زمان حالیہ الیکشن میں  مقابلہ کی پوزیشن میں  رہے اور مجموعی  طور پر نوے ہزار698 ووٹ حاصل کرنے میں  کامیاب ہوئے ورنہ دوسری صورت میں  معاملہ اور بھی سنگین ہوتاکیونکہ وہ اپنے آبائی حلقے پی کے 49 سے بھی وہ ووٹ حاصل نہ کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی وہاں  بھی راجہ عامر زمان ہل اسٹیشنوں  نجف پور، ہلی، جبری اور دیگر یونین کونسلوں  سے ہار گئے جہاں  سردار مشتاق کا طوطی بولتا ہے جو  2013 میں  الیکشن سے قبل بوجہ مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی پی میں  شامل ہو گئے تھے لیکن واپس مسلم لیگ ن میں  شامل ہو چکے ہیں  جس کا بھرپور فائدہ بابر نواز کو پہنچا راجہ عامرزمان صرف پنج کٹھہ اور خانپور کے علاقوں  سے کامیابی حاصل کر سکے جبکہ پی کے سے تحریک انصاف کے فیصل زمان جہازوں  والے اپنے امیدوار راجہ عامر زمان کو اکثریت دلانے کی بھر پور کوشش میں  رہے اور پیر صابر شاہ کو ٹف ٹائم دیا جبکہ پی کے 50،51 میں  بھی راجہ عامر زمان کو سخت حا لات کا سامنا رہا تاہم بابر نواز مسلم لیگ ن پلس والد اختر نواز مرحوم کی سیاسی ساکھ کے نتیجہ میں  ایک لاکھ  37ہزار 219 ووٹ لے کر بھاری حثیت سے کامیاب ہوگئے ہیں  اب یہ بابر نواز خان کا امتحان ہے کہ وہ خود کو اپنے والد کاسیاسی جانشین ثابت کرکے عوامی خدمت کو بلاتفریق شعار بناتے ہیں  یا پھر روائتی سیاست کا شکار ہو جاتے ہیں  نوخیز ہونے کی وجہ سے ابھی ان کا من میلا نہیں  ہوا خدا کرے وہ اس اجلے پن کو سنبھال رکھیں  بعض مبصرین کا خیال ہے یو سف ایوب خان  اور قاضی اسدکے لئے اس ضمنی الیکشن نے مشکلات بڑھا دی ہیں  بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بابر نواز اگلے الیکشن میں  پی کے پچاس سے اپنے بھائی یا کزن سمیع اللہ خان کو میدان میں  اتار سکتے ہیں  جو حال ہی میں  ضلع کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
              یو نس مجاز ۔۔۔  فون نمبر 03369002350۔۔۔۔۔03018126146














سرکا ری نتا ئج آ گئے۔ ہری پو،ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا



ہری پور(یو نس مجاز)
ہری پور میں  این اے کے ضمنی الیکشن میں  مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا  ہے پی ٹی آئی کو ریحام خان اور عمران خان کے سیاسی جلسے بھی نہ بچا سکے عبرت ناک شکست  ہوئی  الیکشن کمیشن کی طرف سےسرکاری حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے امید واربابر نواز نے ایک لاکھ 37ہزار219 جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصا ف کے راجہ عامر زمان نے 90 ہزار698 ووٹ حاصل کئے اس طرح بابر نواز کو راجہ عامر پر  46521 ووٹوں  کی برتری حاصل ہے یہ حلقہ 577480  ووٹرز پر مشتمل  ہے جس میں  513 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور کل نو امید واروں  نے حصہ لیا جب کہ پاکستان کی تاریخ میں  پہلی بار اس الیکشن میں  30  پولینگ اسٹیشنوں  پر بائیو میٹرک سسٹم آزمایا گیا جس میں  36 ہزار ووٹروں  نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے  ووٹوں  کا ٹرن آوٹ 41  فیصد رہا ،واضح ہو کہ2013  کے عام انتخابات میں اس  سیٹ سے راجہ عامر زمان نے کامیابی حال کی تھی لیکن ہارنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمر ایوب کی درخواست پر  الیکشن ٹربیونل  نے سات پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تو عمر ایوب جیت گئے لیکن راجہ عامر نے سپریم کورٹ میں  چیلنج کر دیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پورے حلقہ میں  سولہ اگست کو دوبارہ الیکشن کرادیا ،عمر ایوب والدہ کی بیماری کے بحث الیکشن سے دستبردار ہوگئے تو مسلم لیگ ن نے آزاد امید وار بابر نواز کو اپنا امید وار بنا لیا جو علاقہ میں  اپنے والد مرحوم اخترنواز خان سابق صوبائی وزیر کے پی کے کی  سیاسی ساکھ کا ایڈواٹج پہلے ہی رکھتے تھے سو بھاری اکثریت سے جیت گئے دیگر امیدواروں  میں  کوئی بھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکا ۔

جمعرات، 6 اگست، 2015

ضلع ہری پور کاضمنی الیکشن۔۔۔ تجزیہ۔۔ یو نس مجاز

۔
          
        صاحبو  حلقہ این اے 19خیبر پختون خواہ ضلع ہری پور میں  ضمنی الیکشن کی مہم اپنے عروج پر ہے یوں  تو میدان میں  نو امیدوار اپنی قسمت آزمائی کے لئے اترے ہوئے ہیں  لیکن اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں  بلتر تیب ڈاکٹر راجہ عامر زمان اور بابر نواز خان کے درمیان ہو گا دیگر امیدواروں  میں  پی پی کے حاجی طاہر قریشی آل پاکستان مسلم لیگ سفیر احمد جبکہ آزاد امیدواروں  میں  پیر عالم زیب شاہ ،عقیل احمد درانی ،خان شیر ،صفدر زمان اورذیشان احمد شامل ہیں  تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان کسی تعارف کے محتاج نہیں  سابق وزیر اعلیٰ سرحد راجہ سکندر زمان مرحوم کے فرزند ضلع ناظم اور رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں  الیکشن کے جنرل الیکشن میں  اسی حلقہ سے جیتے تھے لیکن مدِ مقابل مسلم لیگ کے امیدوار عمر ایوب خان دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن ٹریبونل میں  چلے گئے تو اس نے سات پولنگ اسٹیشنوں  پر دوبارہ پولنگ کافیصلہ سنایا ووٹنگ ہوئی تو عمر ایوب جیت گئے لیکن راجہ عامر نے الیکشن ٹربیونل کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں  چیلنج کیا ہوا تھا سو سپریم کورٹ نے پورے حلقے میں  ووٹنگ دوبارہ کرانے کا حکم جاری کر دیا جو اگست کو ہورہے ہیں  جس میں  مسلم لیگ ن کی مرکز اور تحریک انصا ف کی صوبے میں  قائم حکومتوں  کی کارکردگی کو جانچا جائے گا  اصولا تو عمر ایوب خان کو مسلم لیگ ن کا میدوار ہونا چائیے تھا لیکن وہ اپنی والدہ کی بیماری کی شدت کی وجہ سے میدان سے ہٹ گئے اور پوری توجہ اپنی والدہ کی تیمارداری پر مر کوز کئے ہوئے ہیں  انھوں  نے راقم سے ٹیلفونک گفتگو میں  اس تائثر کو مسترد کر دیا کہ وہ والدہ صاحبہ کی بیماری کے علاوہ کسی اور وجہ سے الیکشن سے باہر ہوئے ہیں  ان کا کہنا تھا کہ وہ اگلے جنرل الیکشن  میں  اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے ہی امیدوار ہوں  گے موجودہ حالات میں  مسلم لیگی راہنماوں  پیر صابر شاہ ،حبیب اللہ خان ترین اور قاضی اسد کی طرف سے ضمنی الیکشن میں  حصہ لینے سے معزرت کے بعد ان کی مشاورت سے بابر نواز خان جو مرحوم اختر نواز خان سابق صوبائی وزیر خیبر پختون خواہ کے بیٹے ہیں  کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا ہے مرحوم اختر نواز خان کو ان کی عوامی سیاست کی وجہ سے حلقہ میں  انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد خالی ہونے والی صوبائی سیٹ پر ان کے بھائی اور بابر نواز خان کے چچا گوہر نواز خان دو بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں  اور حلقہ کی نمائندگی کر رہے ہیں  جس کا بھر پور فائدہ بابر نواز خان ضمنی الیکشن میں  حاصل کرنے کی کوشش کریں گے گو بابر نواز خان حلقہ پی کے کے ضمنی الیکشن میں  یوسف ایوب خا ن کے بھائی اور موجودہ رکن اسمبلی تحریک انصاف اکبر ایوب خان کو ٹف ٹائم دے چکے ہیں  اور خطر ناک حد تک کم مارجن سے ہارے ہیں  تاہم موجودہ ضمنی الیکشن میں  جہاں  ان کے والد مرحوم اختر نواز خان کی سیاسی ساکھ جو انھوں  نے اپنی  زندگی میں  بنائی تھی ان کے کام آرہی ہے وہاں  پیر صابر شاہ ،حبیب اللہ خان ترین اور قاضی محمد اسد مسلم لیگی راہنماوں  کی طر ف سے اپنے امید وار کے حق میں  چلائی جانے والی الیکشن مہم پر بھی منحصر ہے کیونکہ قومی اسمبلی کا حلقہ پورے ضلع ہری پور پر مشتمل ہیں  جس میں  چار صوبائی حلقے شامل ہیں  اور ہر جگہ بابر نواز خان کی فزیکل موجودگی کم وقت میں  مشکل ہے تا ہم ان  کے چچا رکن صوبائی اسمبلی گوہر نواز خان اس ضمن میں  ایکٹو دیکھائی دے رہے ہیں  سردار محمد مشتاق سابق رکن قومی اسمبلی جو دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں اس الیکشن میں کیا رول ادا کر سکیں  گے تا حال واضح نہیں  کیونکہ ان کے بھائی سردار ہارون حال ہی میں  تحریک انصا ف کے ٹکٹ پر رکن ضلع اسمبلی منتخب ہوئے ہیں  اور پارٹی امیدوار راجہ عامر زمان کے حق میں  بھر پور انتخابی مہم چلا رہے ہیں  اسی طرح مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی راجہ فیصل زمان کی خاموشی بھی معنی خیز ہے چونکہ ان کے بھائی راجہ عامر زمان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں  بادی النظر میں  مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم میں  یکسوئی ناپید ہے جسکا سبب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں  مایوس کن کارکردگی کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے عوامل بھی ہیں  جن کا تذکرہ فی الحال مناسب نہیں  بس بابر نوازخان اور ان کے چچا گوہر نواز خان کو الیکشن مہم پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے چونکہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں  ان کے حمایت یافتہ امیدواروں  کے ہار نے اور بعض مخلص دوستوں  کی ناراضگی جیسے مسائل بھی ان کو درپیش ہیں  انھیں  روائتی سپورٹروں  کے بجائے نئے سپورٹروں  اور وٹروں  تک رسائی ممکن بنانا ہو گی جہاں  تک تعلق ہے تحریک انصاف کا تو بلدیاتی انتخابات کے بعد ضلع ہری پور میں ایک بھرپور اور منظم طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے جس کا تمام تر سہرا یو سف ایون خان کے سر جاتا ہے جنھوں  نے الیکشن سے قبل  اپنے امیدواروں  کو  جتوانے اور الیکشن کے بعد آزاد امید واروں  کو پارٹی میں  لانے میں  بھر پور کردار کیا اور آج تحریک انصاف ضلع اور تحصیل میں  اپنی حکومتیں  بنانے جارہی ہے یہی وہ کشش ہے جو ووٹروں  کو ضمنی الیکشن میں  راجہ عامر زمان کی حمایت پے مجبور کر سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی بد ترین حکومت بھی ضمنی الیکشن جیتتی رہی ہے راجہ عامر زمان اپنے والد راجہ سکندر زمان کے روائتی دھڑے جنبے کے ساتھ ساتھ خود اپنا حلقہ احباب بھی رکھتے ہیں  اور کسی بھی امیدوار کے مقابل ہر وقت  مقابلے کی پوزیشن میں  ہوتے ہیں اب کی بار بعض حلقے ان کی روائتی سستی اور ووٹروں  سے رابطے کی عدم موجودگی کی وجہ سے نالاں  ہیں  تاہم ان کی خوش قسمتی تحریک انصا ف اور یوسف ایوب خان کی موجودگی کی وجہ سے سر چڑ کر بول رہی ہے کیونکہ اس بار یو سف ایوب خان اپنے کزن عمر ایوب خان کے میدان سے ہٹ جانے کے بعد کھل کر کھیل رہے جبکہ بلدیاتی نمائندگان کی اکثریت کا تعلق تحریک انصا ف سے ہونے کی وجہ سے الیکشن مہم کو منظم انداز میں  چلانے کا فائدہ  بھی راجہ عامر زمان کو حاصل ہے حلقہ پی کے ان کا آبائی حلقہ ہونے کی وجہ سے راجہ عامر زمان اپنی توجہ اس پر مرکوز کئے ہوئے ہیں  جہاں  بابر نواز کا اثر رسوخ کم ہے جبکہ ان کے سپورٹر بھی زیادہ بااثر نہیں  لیکن پی کے میں  بابر نواز خان اور راجہ عامر زمان میں  سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے جہاں  گوہر نواز خان اور یوسف ایوب خان اپنے اپنے امیدواروں  کے حق میں  بھر پور انتخابی مہم چلا رہے ہیں  حلقہ پی کے میں  اختر نواز خان مرحوم اور اب گوہر نواز خان اپنے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ووٹروں  تک رسائی حاصل کر رہے ہیں  وہاں  یوسف ایوب خان بھی حلقہ پی کے  میں  بے تحاشہ ترقیاتی کاموں  اور دھڑے جنبے کی وجہ سے بھرپور کامیابی کے لئے پر امید ہیں  رہا تعلق حلقہ پی کے تو وہاں  تحریک انصاف کے رکن صو بائی اسمبلی فیصل زمان جہازوں  والے اور  مسلم لیگ ن کے پیر صابر شاہ میں  اپنے اپنے امیدواروں  کی جیت کے لئے سخت دوڑ دکھائی دے رہی ہے جہاں  راجہ عامر زمان کا ذاتی اثر رسوخ اگرچہ موجود ہے لیکن مرحوم اختر نواز خان بھی اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے تھے اور ان کا حلقہ احباب بھی موجود ہے جس کا فائدہ بابر نواز خان حاصل کرنے کو کوشش کریں  گے مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں  سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے،بہر کیف اس کے لئے اگست کا انتظار کرنا ہو گا ،رہی بات میدان میں  موجو د دیگر امیدواروں  کی تو طاہر قریشی پیپلز پارٹی کے روائتی ووٹ جبکہ پیر عالم زیب شاہ جمعیت علماء اسلام اور ذاتی احباب کے  ووٹ حاصل کریں  گے لیکن نتائج پر کوئی خاص اثر نہیں  پڑے گا ،جبکہ باقی مانندہ امیدواروں نے محض  انگلی کٹوا کرشہیدوں  میں  نام لکھوانے کی جسارت کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو نس  مجاز ۔۔۔۔۔۔۔03018126146۔۔۔۔03369002350